Tuesday 21 January 2014

نقوش اقبال از حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ


نقوش اقبال

مولانا ابوالحسن علی ندوی اور ندوۃ العلماء سے منسلک اکثر علماء شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کی فکر اور ان کے آفاقی نظریات سے بہت متاثر رہے ہیں ۔ مولانا سید سلیمان ندوی ، مولانا عبدالسلام ندوی اور مولانا مسعود عالم ندوی کے اقبال کے ساتھ تعلقات اور عقیدت و احترام کا اندازہ ان کی تحریروں سے لگایا جا سکتا ہے ۔ اقبال کا نام ۱۹۳۰ ؁ء سے پہلے ہی عرب دنیا میں متعارف ہو چکا تھا اور کئی عرب ادیبوں نے اقبال کی نظموں اور غزلوں کا ترجمہ بھی کیا  تھا۔ ان کی ملّی، قومی اور آفاقی افکار و نظریات پر عمدہ تجزئیے عرب رسائل و جرائد میں آچکے تھے۔ اقبال مصر ، فلسطین اور دیگر ممالک کا سفر کر چکے تھے۔ لندن میں راونڈ ٹیبل کانفرنس سے فراغت کے بعد اقبال جب براستۂ مصر وطن لوٹ رہے تھے تو مصر میں علماء اور شعرأ نے ان کا پر جوش استقبال کیا ۔ اس وقت مصر کے مشہور روحانی بزرگ ابو صالح محمد متقی نے اقبال کو اپنے گھر مدعو کیا اور اپنے معتقدین کے سامنے ان کا تعارف بڑے ہی شاندار الفاظ میں کرایا۔ ۱۹۵۰ ؁ء کے اوائل میں مشہور مصری ادیب ڈاکٹر عبدالوہاب عزام نے عرب دنیا میں فکر اقبال کو متعارف کرانے میں ایک گراں قدر حصہ ادا کیا تھا اور انہوں نے عربی میں محمد اقبال -سیرتہ و فلسفہ و شعرہ کے عنوان سے ایک کتاب لکھ کر اقبال کی شاعری کا تجزیہ کیا تھا اور ان کے افکار کی تشریح و توجیہہ کی تھی۔
عزام، امین شوقی اور دیگر عرب ادیبوں نے فنی محاسن کے اعتبار سے کلام اقبال کا شاندار اور قابلِ قدر تجزیہ کیا، لیکن عالم عرب میں اقبال کے پیغام ، فکر ،، روح اور مشن کو متعارف کرانے میں مولانا ابوالحسن علی ندوی نے مثالی رول ادا کیا ہے۔ مولانا نے ’’روائع اقبال‘‘ لکھ کر اقبال کے فکری سرچشموں ، ان کے کلام میں موجزن روحانی قدروں ، ان کے مشرقی مزاج ، مذاہب کی صالح روایات کے ساتھ ان کی وابستگی مغرب پر ان کی کڑی تنقید کو پورے شرح وبسط کے ساتھ واضح کیا۔ علامہ اقبال کی شاعری کے ساتھ اپنی دلچسپی اور شیفتگی کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے مولانا ندوی اپنی سرگذشت کاروان زندگی‘‘ میں لکھتے ۔
’’۱۹۳۴ ؁ء -۱۹۳۵ ؁ء تک میں علامہ اقبال کے کلام و پیام کا زیادہ گرویدہ و شیفتہ نہیں تھا۔ میں اس وقت صرف بانگِ درا سے آشنا تھا۔ میں نے ان کی ’’چاند‘‘ والی نظم کا عربی میں ترجمہ کیا تھا اور انہوں نے مئی ۱۹۲۹ ؁ء میں میرے پہلے سفر لاہور کے موقع پر اس کو ملاحظہ بھی فرمایا تھا، لیکن جب میری نظر ان کے بعد کے کلام ’’ضرب کلیم‘‘ پر پڑی ، جو کہ میں لکھنو کے مکتبۂ دانش محل سے خرید کر لے آیا تھا تو میری آنکھیں کھل گئیں اور میں ان کے کلام کی بلندی اور تاثیر سے مسحور ہو گیا۔ لیکن ’’بالِ جبریل ‘‘ پڑھ کر اس سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس میں خیالات کی رفعت و جدت کے ساتھ ترنّم اور حلاوتِ جرس زیادہ تھی ۔ پھر ـ’’اسرارِ خودی‘‘ اور ’’رموز بیخودی‘‘ ، ’’مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘، ’’پیام مشرق‘‘ اور  بعد میں ’’جاوید نامہ‘‘ اور ’’زبورِ عجم‘‘  کا مطالعہ کیا اور ذہن و قلب نے ان کا وہ اثر قبول کیا جو کسی معاصر شخصیت کا (جہاں تک ادب و شاعری و فکر کا تعلق ہے ) اثر قبول نہیں کیا تھا‘‘۔


روائع إقبال تأليف السيد ابوالحسن علي الحسني الندوي رحمة الله عليه


روائع إقبال 
يقول العلامة السيد أبوالحسن علي الندوي رحمة الله عليه في مقدمته للكتاب: 


إن أعظم ماحملني على الإعجاب بشعر إقبال هو: الطموح والحب والإيمان، وقد تجلى هذا المزيج الجميل في شعره وفي رسالته أعظم مماتجلى في شعر معاصر، ورأيت نفسي قد طبعت على الطموح والحب والإيمان، وهي تندفع اندفاعاً قوياً إلى كل أدب ورسالة يبعثان الطموح وسمو النفس وبعد النظر والحرص على سيادة الإسلام، وتسخير هذا الكون لصالحه والسيطرة على النفس والآفاق ويغذيان النفس والعاطفة، ويبعثان الإيمان بالله والإيمان بمحمد صلى الله عليه وسلم وبعبقرية سيرته وخلود رسالته وعموم إمامته للأجيال البشرية كلها



Monday 20 January 2014

America se saf saf batain - speech by Maula sayyed Abul Hassan Ali Nadwi Rh.


نئی دنیا"امریکہ" سے صاف صاف باتیں

(از حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ)

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی سنہ 1977ء میں پہلے سفر 


امریکہ کے موقع پر کی گئی تقریر ۔


ڈاون لوڈ کرنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں


Monday 13 January 2014

معهد الكاتب لتعليم الخطوط العربية: الخط العربي و أنواعه

معهد الكاتب لتعليم الخطوط العربية: الخط العربي و أنواعه: بسم الله الرحمن الرحيم  أنواع الخط العربي                                          الخط الكوفي خط الرقعة خط الن...